اینکر عمران ریاض خان کی گرفتاری پر اٹک کی مقامی عدالت نےفیصلہ سنا دیا

یہ مقدمہ میرے اختیار میں نہیں، متعلقہ فورم سے رجوع کیا جائے۔عدالت نے صحافی عمران ریاض کو راولپنڈی پولیس کے حوالے کر دیا


اٹک ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین ۔ 06 جولائی 2022ء ) معروف اینکر عمران ریاض خان کی گرفتاری پر اٹک کی مقامی عدالت نے محفوظ فیصلہ سنا دیا۔ اینکر عمران خان کو درخواست ضمانت کے لیے اٹک کی مقامی عدالت میں مجسٹریٹ یاسر نواز کے روبرو پیش کیا گیا جہاں عدالت نے سرکاری وکیل اور عمران ریاض خان کے وکیل کی جانب سے دئیے گئے دلائل کے بعد فیصہ محفوظ کیا گیا۔

عدالت نے عمران ریاض کے وکیل میاں علی اشفاق کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔سماعت کے دوران مجسٹریٹ نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا تھا کہ پیکا قانون کے تحت گرفتاری کے بعد آپ کیسے عمران ریاض خان کو میرے سامنے لائے؟ کس قانون کے تحت لائے ہیں؟۔کیا عمران ریاض خان کے کوئی بنیادی حقوق نہیں؟۔ عمران ریاض خان کے وکیل علی اشفاق نے دلائل دئیے کہ پیکا کی جس شق کے تحت گرفتار کیا گیا، وہ شق ہی کالعدم ہو چکی ہے۔

پولیس کے پاس گرفتاری کا اختیار کرنا تو دور کی بات، یہ تو ایف آئی آر ہی نہیں کر سکتے تھے۔سماعت کے دوران آئی او روسٹرم پر آئے تو انہوں نے کہا کہ میں نے سی ڈی سنی ہے، اس میں عمران ریاض خان نے فوج پر الزامات لگائے ہیں،مجسٹریٹ نے سوال کیا کہ الفاظ کیا تھے؟ ۔مجسٹریٹ نے یہ بھی استفسا رکیا کہ آپ نے ایف آئی آر کرنے سے پہلے سی ڈی سنی؟آئی او نے جواب دیا کہ میں نے بعد میں سنی۔

مجسٹریٹ نے فیصلہ سنایا ہے کہ ان کا دائرہ اختیار نہیں ہے، متعلقہ فورم سے رجوع کیا جائے۔مجسٹریٹ نے عمران ریاض خان کو رات 10 بجے سے پہلے راولپنڈی کی عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔عدالت نے صحافی 
عمران ریاض کو راولپنڈی پولیس کے حوالے کر دیا۔


اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ نے اینکر عمران ریاض خان کی گرفتاری کے خلاف دائر درخواست لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کا حکم دیتے ہوئے نمٹا دی تھی ۔

بدھ کو عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ عمران ریاض خان کی گرفتاری اسلام آبادہائیکورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی ،عمران ریاض خان کی گرفتاری قانون کے مطابق ہوئی یا نہیں، فیصلہ لاہور ہائیکورٹ کرے گی ۔ دوران سماعت عمران ریاض خان کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ عمران ریاض نے مجھے فون کر بتایا کہ وہ اسلام آباد ٹول پلازہ پر ہے ، اس کی گرفتاری اسلام آباد کی حدود سے ہوئی ہے ،لاہور ہائی کورٹ میں پولیس نے 17 مقدمات درج ہونے کی رپورٹ دی ،لاہور ہائی کورٹ میں میں نے الگ سے توہین عدالت کی درخواست دائر کی،لاہور ہائیکورٹ کو رات کی ایف آئی آر سے متعلق نہیں بتایا گیا تھا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ ہر عدالت کا اپنا دائرہ اختیار ہے لاہور ہائی کورٹ اس معاملے کو دیکھ سکتی ہے ،اٹک میں عمران ریاض خان کی گرفتاری ہوئی اس عدالت کا دائرہ اختیار نہیں بنتا ، یہ کورٹ پنجاب کی تفتیش تو نہیں کر سکتی ۔عدالت نے حکم دیا کہ اس عدالت نے اسلام آباد سے گرفتاری کی بات کی تھی اب یہ ہمارے دائرہ اختیار کے باہر سے گرفتاری ہوئی،اسلام آباد پولیس نے عمران ریاض خان کی گرفتاری نہیں کی پنجاب پولیس نے کی،ہم اس کیس میں کوئی آبزرویشن نہیں دے رہے ،اگر لاہور ہائیکورٹ کہے کہ اسلام آباد سے گرفتاری ہوئی تو وہ آرڈر اس عدالت کے سامنے لے آئیے گا، یہ آپ کے انٹرسٹ میں ہے کہ لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کریں ۔

چیف جسٹس نے درخواست لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کے ساتھ نمٹا دی۔